ان کی نگاہ ناز کے قابل کہیں جسے
وہ جنس معتبر ہو عطا دل کہیں جسے
شب خانۂ حیات کی رونق ہے آج تک
وہ روشنی فروغ غم دل کہیں جسے
کیا ڈھونڈتے ہو رہ رو سرمایۂ سکوں
معدوم ہے وہ نقش ہی منزل کہیں جسے
اے اضطراب موج و تلاطم ترے سوا
وجہ سکوں وہ کون ہے ساحل کہیں جسے
دیوانگئ اہل جنوں پر نہ جائیے
شائستۂ یقیں ہے وہ غافل کہیں جسے
معراج جس کو کہتے ہیں صحرائے عشق کی
وہ ہے بگولہ آج بھی محمل کہیں جسے
غنچوں پہ کیا گزر گئی سن کر یہ کیا خبر
وہ لے خروش قلب عنادل کہیں جسے
ممنون التفات بھی اکثر ہوا ہوں میں
اس چشم نیم باز کا قاتل کہیں جسے
ملتا کہاں ہے اے رضاؔ بے شورش جنوں
ایسا سکوت گرمئ محفل کہیں جسے

غزل
ان کی نگاہ ناز کے قابل کہیں جسے
رضا جونپوری