ان کے بغیر ہم جو گلستاں میں آ گئے
محسوس یہ ہوا کہ بیاباں میں آ گئے
تشہیر دل گرفتگئ حسن ہو گئی
آنسو چھلک کے چشم پشیماں میں آ گئے
ہم ترک ربط و ضبط محبت کے باوجود
سو بار کھنچ کے کوچۂ جاناں میں آ گئے
پھولوں کو راس آیا نہ جب عرصۂ بہار
گلشن سے ہٹ کے گوشۂ داماں میں آ گئے
ہر چند اہل ہوش تھے ارباب زندگی
لیکن فریب گردش دوراں میں آ گئے
آیا مری زباں پہ یکایک جو ان کا نام
کس کس کے ہاتھ میرے گریباں میں آ گئے
چھپ کر نگاہ شوق سے دل میں پناہ لی
دل میں نہ چھپ سکے تو رگ جاں میں آ گئے
تھے منتشر ازل میں جو ذرات کوئے دوست
انسان بن کے عالم امکاں میں آ گئے
جن کی ادا ادا میں ہیں رعنائیاں شکیلؔ
اشعار بن کے وہ مرے دیواں میں آ گئے
غزل
ان کے بغیر ہم جو گلستاں میں آ گئے
شکیل بدایونی