ان ہی پیڑوں پہ کہ سایوں کا گماں رکھتے ہیں
منحصر اپنے لیے آگ دھواں رکھتے ہیں
جیسے پوشاک پہ پوشاک پہن کر نکلیں
خود کو آزاد تکلف سے کہاں رکھتے ہیں
ہم بھی انگور کی شاخوں کی طرح اٹھ اٹھ کر
ہائے تقدیر بدست دگراں رکھتے ہیں
زلزلے آئیں گے تسلیم بجا لائیں گے
زہد پندار ابھی کوہ گراں رکھتے ہیں
پہلے دیوانگی کی حد ہی نہیں کھینچتی تھی
سامنے اب رم آہو کے نشاں رکھتے ہیں
اس قدر فاصلے پھیلا کے کہاں بیٹھا ہے
تجھے تو پاس ہی مثل رگ جاں رکھتے ہیں
غزل
ان ہی پیڑوں پہ کہ سایوں کا گماں رکھتے ہیں
سید رضا