عمود ہو کے افق میں بدل رہے ہیں ستون
دہل رہی ہے عمارت پگھل رہے ہیں ستون
بنا ہی کھوکھلی ٹھہری تو کیا عروج و زوال
شکستگی کی علامت میں ڈھل رہے ہیں ستون
چھتیں تو گر گئیں شہتیر کی خرابی سے
یہ کس کا بوجھ اٹھائے سنبھل رہے ہیں ستون
ہوا کے رخ نے نیا مرثیہ لکھا ہے جہاں
بھڑک اٹھی ہے وہیں آگ جل رہے ہیں ستون
ندا ہے کیسی زمیں اے زمیں خبر تو لے
کہ بند کمروں کا سب راز اگل رہے ہیں ستون
بدلتے لمحوں کو گنتے ہوئے ہیں استادہ
نظر کا زاویہ کہتا ہے چل رہے ہیں ستون

غزل
عمود ہو کے افق میں بدل رہے ہیں ستون
رؤف خلش