عمر گزر جاتی ہے قصے رہ جاتے ہیں
پچھلی کے رت بچھڑے ساتھی یاد آتے ہیں
لوگوں نے بتلایا ہے ہم اب اکثر
باتیں کرتے کرتے کہیں کھو جاتے ہیں
کوئی ایسے وقت میں ہم سے بچھڑا ہے
شام ڈھلے جب پنچھی گھر لوٹ آتے ہیں
اپنی ہی آواز سنائی دیتی ہے
ورنہ تو سناٹے ہی سناٹے ہیں
دل کا ایک ٹھکانا ہے پر اپنا کیا
شام جہاں ہوتی ہے وہیں پڑ جاتے ہیں
کچھ دن حسب منشا بھی جی لینے دے
دیکھ تری ٹھڈی میں ہاتھ لگاتے ہیں
غزل
عمر گزر جاتی ہے قصے رہ جاتے ہیں
شمیم عباس