عمر بھر سینہ میں اک درد دبائے رکھا
ایک بے نام سے رشتہ کو نبھائے رکھا
تھا مجھے وہم و گماں کی وہ فقط میری ہے
اور اس نے بھی بھرم میرا بنائے رکھا
آندھیاں شرم سے ہو جائے نہ پانی پانی
سر یہی سوچ کے پیڑوں نے جھکائے رکھا
ویسے ہر بات سے رکھا اسے واقف ہم نے
لیکن افسانۂ الفت کو چھپائے رکھا
ایک رشتہ جسے میں دے نہ سکا کوئی نام
ایک رشتہ جسے تا عمر نبھائے رکھا
کوزہ گر تجھ کو بنانا ہی نہیں تھا جب کچھ
کس لئے چاک پہ تا عمر چڑھائے رکھا
غزل
عمر بھر سینہ میں اک درد دبائے رکھا
عکس سمستی پوری