عمر بھر پیش نظر ماہ تمام آتے رہے
چند چہرے آئینہ خانے کے کام آتے رہے
چند قطرے بھی نہ ٹپکے خواہشوں کی ریت پر
کیسے کیسے ابر تھے بالائے بام آتے رہے
میرے ماضی کے افق پر چند جگنو تھے کہ جو
حال کی تیرہ شبی میں میرے کام آتے رہے
میں ہوس کے گرد چاہت کا ہنر بنتا رہا
اس کے خط میری وفاداری کے نام آتے رہے
ہائے وہ شیریں تمنا اور وہ طفلانہ خو
ہم سدا جس کے لیے خود زیر دام آتے رہے
تم حصار وقت میں سورج بنے بیٹھے رہے
اور گردش کے لیے خود صبح و شام آتے رہے
عمر بھر خوابوں کی منزل کا سفر جاری رہا
زندگی بھر تجربوں کے زخم کام آتے رہے

غزل
عمر بھر پیش نظر ماہ تمام آتے رہے
رونق رضا