عمر بھر کچھ اس طرح ہم جاگتے سوتے رہے
بھیڑ میں ہنستے رہے تنہائی میں روتے رہے
روشنی کی تھی کہاں فرصت جو وہ یہ سوچتی
کیسے کیسے اس کی خاطر ہم ہون ہوتے رہے
دھوپ کی فصلیں اگیں گی یہ ہمیں معلوم تھا
پھر بھی ہم سب کے دلوں میں چاندنی بوتے رہے
سارے بوجھوں کو بڑا اچرج ہے کیسے ہم انہیں
پھول جیسی زندگی کی پیٹھ پر ڈھوتے رہے
ان ہی زخموں نے ہمیں سونپی کراہیں اے کنورؔ
جن کے منہ ہم آنسوؤں کے نیر سے دھوتے رہے
غزل
عمر بھر کچھ اس طرح ہم جاگتے سوتے رہے
کنور بے چین

