عمر بھر خون سے لکھا ہے جس افسانے کو
کتنا کم رنگ ہے اس شوخ کے نذرانے کو
کھلتی رہتی ہیں ترے پیار کی کلیاں ہر سو
باغ نیلام نہ کر دیں مرے ویرانے کو
مے سے رغبت تو مجھے بھی ہے مگر بس اتنی
ناچتے دیکھ لیا دور سے پیمانے کو
اور مرتا کہیں جا کر ترے در سے لیکن
ہوش اتنا بھی کہاں تھا ترے دیوانے کو
کیا خبر تھی یہ ترا در یہ ترا کوچہ ہے
میں تو بس بیٹھ گیا تھا ذرا سستانے کو
شمع جلنے کی اجازت نہیں دیتی اخترؔ
شوق بجھنے نہیں دیتا مرے پروانے کو

غزل
عمر بھر خون سے لکھا ہے جس افسانے کو
سعید احمد اختر