عمر بے وجہ گزارے بھی نہیں جا سکتے
اتنے زندہ ہیں کہ مارے بھی نہیں جا سکتے
حال اب یہ ہے کہ دریا میں بھی لگتا نہیں جی
اور کسی ایک کنارے بھی نہیں جا سکتے
اس جگہ جا کے وہ بیٹھا ہے بھری محفل میں
اب جہاں میرے اشارے بھی نہیں جا سکتے
زیب تن اتنے کیے دل نے ہوس کے ملبوس
کہ شب وصل اتارے بھی نہیں جا سکتے
نیند سے اس کو جگانا بھی ضروری ہے بہت
رات بھر اس کو پکارے بھی نہیں جا سکتے
ساری شکلوں سے پرے ہے وہ ہمارا محبوب
سو تصور کے سہارے بھی نہیں جا سکتے
جیتنے کا نہ کوئی شوق نہ توفیق ہمیں
لیکن اس طرح تو ہارے بھی نہیں جا سکتے
فلک عشق پہ تا دیر ٹھہرنا ہے محال
اس بلندی سے اتارے بھی نہیں جا سکتے
فرحتؔ احساس تجھے منع ہے جانا اس تک
کیا ترے خون کے دھارے بھی نہیں جا سکتے
غزل
عمر بے وجہ گزارے بھی نہیں جا سکتے
فرحت احساس