عمر آخر ہے جنوں کر لوں بہاراں پھر کہاں
ہاتھ مت پکڑو مرا یارو گریباں پھر کہاں
چشم تر پر گر نہیں کرتا ہوا پر رحم کر
دے لے ساقی ہم کو مے یہ ابر باراں پھر کہاں
یار جب پہنے جواہر کر دے اے دل جی نثار
جل چک اے پروانے یہ رنگیں چراغاں پھر کہاں
اس طرح صیاد کب آزاد چھوڑے گا تمہیں
بلبلو دھومیں مچا لو یہ گلستاں پھر کہاں
ہے بہشتوں میں یقیںؔ سب کچھ ولیکن درد نئیں
بھر کے دل رو لیجئے یہ چشم گریاں پھر کہاں
غزل
عمر آخر ہے جنوں کر لوں بہاراں پھر کہاں
انعام اللہ خاں یقینؔ