امیدیں مٹ گئیں اب ہم نفس کیا
نشیمن کی خوشی رنج قفس کیا
بسر کانٹوں میں ہو جب زندگانی
بہار خندۂ گل یک نفس کیا
مری دیوانگی کیوں بڑھ رہی ہے
بہار آئی چمن میں ہم نفس کیا
نہ ہو جب رنگ آزادی چمن میں
تو پھر اندیشۂ قید قفس کیا
بہار نو کی پھر ہے آمد آمد
چمن اجڑا کوئی پھر ہم نفس کیا
غزل
امیدیں مٹ گئیں اب ہم نفس کیا
صفیہ شمیم