EN हिंदी
امید کی کوئی چادر تو سامنے آئے | شیح شیری
umid ki koi chadar to samne aae

غزل

امید کی کوئی چادر تو سامنے آئے

فردوس گیاوی

;

امید کی کوئی چادر تو سامنے آئے
میں رک بھی جاؤں ترا گھر تو سامنے آئے

میں راہ عشق میں خود کو فنا بھی کر دوں گا
مرے حبیب وہ منظر تو سامنے آئے

ہمارے بازو کا دنیا کمال دیکھے گی
عدو کا کوئی بھی لشکر تو سامنے آئے

میں احترام سے دستار اس کے سر باندھوں
وہ فن شناس سخنور تو سامنے آئے

کروں گا عمر بھر اس پر میں پیار کی بارش
وہ خوش جمال سا پیکر تو سامنے آئے

سر نیاز جھکے گا خود اس کے قدموں میں
وہ لے کے ہاتھ میں خنجر تو سامنے آئے

میں ایک سنگ ہوں مجھ میں ہیں صورتیں پنہاں
مجھے تراشنے آذر تو سامنے آئے

فدائے عشق ہوں مرنے کا ڈر نہیں فردوسؔ
مجھے ڈبونے سمندر تو سامنے آئے