EN हिंदी
امنڈ رہی ہیں گھٹائیں کہ زلف برہم ہے | شیح شیری
umanD rahi hain ghaTaen ki zulf barham hai

غزل

امنڈ رہی ہیں گھٹائیں کہ زلف برہم ہے

نظیر محسن

;

امنڈ رہی ہیں گھٹائیں کہ زلف برہم ہے
چھلک رہا ہے جو خم ہے کہ آنکھ پر نم ہے

نشاط زیست میسر نہیں تو کیا شکوہ
مجھے حیات سے بڑھ کر حیات کا غم ہے

پھر آج گردش دوراں سے مات کھائی ہے
بساط دل ہی الٹ دو کہ حوصلہ کم ہے

ٹھہر نہ جائے کہیں نبض گردش دوراں
تری نگاہ کرم کا کچھ اور عالم ہے

نہ شور نغمہ نہ رقص سبو نہ خندۂ گل
چمن میں آج نگار چمن کا ماتم ہے