الجھی ہوئی سوچوں کی گرہیں کھولتے رہنا
اچھا ہے مگر ان میں لہو گھولتے رہنا
دن بھر کسی منظر کے تعاقب میں بھٹکنا
اور شام کو لفظوں کے نگیں رولتے رہنا
میں لمحۂ محفوظ نہیں رک نہ سکوں گا
اڑنا ہے مرے سنگ تو پر تولتے رہنا
خاموش بھی رہنے سے جنازے نہیں رکتے
جینے کے لئے ہم نفسو بولتے رہنا
اچھا نہیں آغاز مسافت ہی میں ناصرؔ
کشتی کا سر آب رواں ڈولتے رہنا

غزل
الجھی ہوئی سوچوں کی گرہیں کھولتے رہنا
حسن ناصر