الجھا دل ستم زدہ زلف بتاں سے آج
نازل ہوئی بلا مرے سر پر کہاں سے آج
تڑپوں گا ہجر یار میں ہے رات چودھویں
تن چاندنی میں ہوگا مقابل کتاں سے آج
دو چار رشک ماہ بھی ہم راہ چاہئیں
وعدہ ہے چاندنی میں کسی مہرباں سے آج
ہنگام وصل رد و بدل مجھ سے ہے عبث
نکلے گا کچھ نہ کام نہیں اور ہاں سے آج
قعر بدن میں روح پکاری یہ وقت نزع
مدت کے بعد اٹھتے ہیں ہم اس مکاں سے آج
کھینچی ہے چرخ نے بھی کسی مانگ کی شبیہ
ثابت ہوئی یہ بات مجھے کہکشاں سے آج
اندھیر تھا نگاہ امانتؔ میں شام سحر
تم چاند کی طرح نکل آئے کہاں سے آج
غزل
الجھا دل ستم زدہ زلف بتاں سے آج
امانت لکھنوی