EN हिंदी
اجڑی ہوئی بستی کی صبح و شام ہی کیا | شیح شیری
ujDi hui basti ki subh o sham hi kya

غزل

اجڑی ہوئی بستی کی صبح و شام ہی کیا

زیب غوری

;

اجڑی ہوئی بستی کی صبح و شام ہی کیا
خاک اڑانے والوں کا انجام ہی کیا

پاس سے ہو کر یوں ہی گزر جاتی ہے صبا
دیوانے کے نام کوئی پیغام ہی کیا

جو بھی تمہارے جی میں آئے کہہ ڈالو
ہم مستانے لوگ ہمارا نام ہی کیا

دور مے و ساغر بھی اپنے شباب پہ ہے
گردش میں ہے چرخ نیلی فام ہی کیا

زیبؔ کے مر جانے کی تو یہ عمر نہ تھی
ڈوب گیا سورج بالائے بام ہی کیا