EN हिंदी
اجالا کر کے ظلمت میں گھرا ہوں | شیح شیری
ujala kar ke zulmat mein ghira hun

غزل

اجالا کر کے ظلمت میں گھرا ہوں

صبا اکبرآبادی

;

اجالا کر کے ظلمت میں گھرا ہوں
چراغ رہ گزر تھا بجھ گیا ہوں

تری تصویر کیسے بن سکے گی
ہر اک سادہ ورق کو دیکھتا ہوں

مجھے طوفان سے شکوہ نہیں ہے
ہلاک بے رخیٔ ناخدا ہوں

ترے تیروں کا اندازہ کروں گا
ابھی تو زخم دل کے گن گا رہا ہوں

تمہیں سورج نظر آئیں گے اپنے
میں آئینہ ہوں اور ٹوٹا ہوا ہوں

صبا آہستہ آہستہ اڑوں گا
میں دست ناز کا رنگ حنا ہوں