افق سے آگ اتر آئی ہے مرے گھر بھی
شکست ہوتے ہیں کیا شہر اپنے اندر بھی
یہ آب و تاب اسی مرحلے پہ ختم نہیں
کوئی چراغ ہے اس آئنے سے باہر بھی
خمیر جس نے اٹھایا ہے خاک سے میرا
اسی نے خواب سے کھینچا ہے میرا جوہر بھی
میں ڈھونڈ لوں گا کوئی راستہ پلٹنے کا
جو بند ہوگا کبھی مجھ پہ آپ کا در بھی
کسی کے عکس منور کی چھوٹ سے ہے دنگ
تو میرے دم سے ہے یہ آئینہ مکدر بھی
یہ سیل شب ہی نہیں میرے واسطے جاری
رواں ہے میرے لیے صبح کا سمندر بھی
دہکنے والے فقط پھول ہی نہ تھے ساجدؔ
کھلے ہوئے تھے انہی کیاریوں میں اخگر بھی
غزل
افق سے آگ اتر آئی ہے مرے گھر بھی
غلام حسین ساجد