EN हिंदी
افق پہ دودھیا سایہ جو پاؤں دھرنے لگا | شیح شیری
ufuq pe dudhiya saya jo panw dharne laga

غزل

افق پہ دودھیا سایہ جو پاؤں دھرنے لگا

پی.پی سری واستو رند

;

افق پہ دودھیا سایہ جو پاؤں دھرنے لگا
مہیب رات کا شیرازہ ہی بکھرنے لگا

تمام عمر جو لڑتا رہا مرے اندر
مرا ضمیر ہی مجھ سے فرار کرنے لگا

سفر میں جب کبھی لا سمتیوں کا ذکر ہوا
ہمارا قافلہ طول سفر سے ڈرنے لگا

سلگ رہا ہے کہیں دور درد کا جنگل
جو آسمان پہ کڑوا دھواں بکھرنے لگا

چڑھی ندی کو میں پایاب کر کے کیا آیا
تمام شہر ہی دریا کے پار کرنے لگا

عجیب کرب سے گزرا ہے جگنوؤں کا جلوس
کہاں ٹھہرنا تھا اس کو کہاں ٹھہرنے لگا

ہمارے ساتھ رہی ہے سفر میں بے خبری
جنوں میں سوچ کا امکان کام کرنے لگا

بہت عجیب ہے باطن کی گمرہی اے رندؔ
سکوت ظاہری ٹکڑوں میں تھا بکھرنے لگا