EN हिंदी
افق کے خونیں دھندلکوں کا صبح نام نہیں | شیح شیری
ufuq ke KHunin dhundlakon ka subh nam nahin

غزل

افق کے خونیں دھندلکوں کا صبح نام نہیں

عرشی بھوپالی

;

افق کے خونیں دھندلکوں کا صبح نام نہیں
قدم بڑھا کہ یہ ساتھی ترا مقام نہیں

ابھی نہ دے مجھے اذن بہار اے ساقی
ابھی حیات ستاروں سے ہم کلام نہیں

ملا ہے اب کہیں صدیوں کے بعد مستوں کو
وہ مے کدہ کہ جہاں کوئی تشنہ کام نہیں

نہ عارضوں پہ شفق ہے نہ گیسوؤں میں شکن
یہ صبح و شام نہیں میرے صبح و شام نہیں

بہار دیر و حرم لے کے کیا کروں ناصح
یہ قافلے تو ابھی تک سحر مقام نہیں

قدم قدم پہ ہے درکار جہد و فکر و عمل
یہ زندگی ہے صدائے شکست جام نہیں

ابھی تو دامن شب میں سسک رہی ہے سحر
بڑھے چلو کہ ابھی ساعت قیام نہیں