اڑنا تو بہت اڑنا افلاک پہ جا رہنا
ہم نے کہاں سیکھا ہے زیر کف پا رہنا
آنکھوں کو کھلا رکھنا کس کے لئے آساں ہے
یاں کس کو گوارا ہے آنکھوں کا کھلا رہنا
جو موجۂ باد آیا زردی کا پیمبر تھا
اعجاز سے کیا کم ہے پیڑوں کا ہرا رہنا
باغوں میں خراماں تھی شہروں میں پریشاں ہے
خوشبو کو نہ راس آیا پابند ہوا رہنا
میں ذات کے صحرا میں تا عمر نہ بھٹکوں گا
اے شہر کے دروازو میرے لیے وا رہنا

غزل
اڑنا تو بہت اڑنا افلاک پہ جا رہنا
گلزار وفا چودھری