ادھر آئے تو اسے پاس بلا کر دیکھیں
حال دل اس کو ذرا آج سنا کر دیکھیں
بزم عشرت میں جو رہتی ہے مسلسل روشن
آج کی رات وہی شمع بجھا کر دیکھیں
ذرے ذرے میں ہیں کتنے ہی مناظر روشن
آپ پلکوں کی یہ چلمن تو اٹھا کر دیکھیں
ظلمت غم میں تجلی کا سماں ہو شاید
آج ہم اپنے نشیمن کو جلا کر دیکھیں
کتنے عکس ابھرے ہیں اور کتنے ہوئے ہیں معدوم
دل کے آئینے کو آئینہ دکھا کر دیکھیں
مدتوں سے ہے جو پہلو میں لرزتا سایہ
آج ہم اس کو اجالوں میں سجا کر دیکھیں
یہ بھی اک رنگ نیا روپ نیا ہو شاید
آج خود سے ہی ذرا خود کو چھپا کر دیکھیں

غزل
ادھر آئے تو اسے پاس بلا کر دیکھیں
کرشن مراری