EN हिंदी
اڑاتے آئے ہیں آپ اپنے خواب زار کی خاک | شیح شیری
uDate aae hain aap apne KHwab-zar ki KHak

غزل

اڑاتے آئے ہیں آپ اپنے خواب زار کی خاک

رحمان حفیظ

;

اڑاتے آئے ہیں آپ اپنے خواب زار کی خاک
یہ اور خاک ہے اک دشت بے کنار کی خاک

یہ میں نہیں ہوں تو پھر کس کی آمد آمد ہے
خوشی سے ناچتی پھرتی ہے ریگزار کی خاک

ہمیں بھی ایک ہی صحرا دیا گیا تھا مگر
اڑا کے آئے ہیں وحشت میں بے شمار کی خاک

ہمیں مقیم ہوئے مدتیں ہوئیں لیکن
سروں سے اب بھی نکلتی ہے رہ گزار کی خاک

یہ حال ہے کہ ابھی سے کھنک رہے ہیں ظروف
ابھی گندھی نہیں جن میں سے بے شمار کی خاک

سنا ہے ڈھونڈتے پھرتے ہیں کب سے کوزہ گراں
ہماری آنکھ کا پانی ترے دیار کی خاک

عجب نہیں کہ مجھے زندہ گاڑنے والے
کل آ کے پھانک رہے ہوں مرے مزار کی خاک