اداسی کے دلدل میں گرتا ہوا دل
بچاؤں میں کیسے یہ مرتا ہوا دل
میں اس کی محبت میں لبریز دریا
وہ مجھ میں اتر کے ابھرتا ہوا دل
ستارے خلا سے ابھی توڑ لاؤں
مگر آسماں سے یہ ڈرتا ہوا دل
کبھی تم نے دیکھا ہے بولو بتاؤ
کسی آئینے میں سنورتا ہوا دل
عیاں اس کی آنکھوں کی شفافیت میں
دھلے پانیوں سا نکھرتا ہوا دل
اٹکتا سنبھلتا سنبھل کے ٹھہرتا
کٹھن راستوں سے گزرتا ہوا دل
جتن لاکھ کر لو نہ آئے گا قابو
ہے اک موج سرکش بپھرتا ہوا دل
غزل
اداسی کے دلدل میں گرتا ہوا دل
شمائلہ بہزاد