اداس اداس تھے ہم اس کو اک زمانہ ہوا
غزل کا آئنہ دیکھا تو مسکرانا ہوا
نہ جانے کتنے ہی خبروں نے خودکشی کر لی
چلو کہ آج کا اخبار بھی پرانا ہوا
پھر آج بیتے ہوئے موسموں کی یاد آئی
پھر آج رینگتے لمحوں سے دوستانہ ہوا
یہ بند کمرے کی تنہائیوں کا غل تھا کہ پھر
ہمارے وہم پر اک وار قاتلانہ ہوا
وہ فاختہ تھی جسے گولیوں نے بھون دیا
یہ قتل صحن گلستاں میں جارحانہ ہوا
ہمارا شہر رہا صرف ولولوں کا ہی شہر
اسے نصیب کہاں زلزلے اگانا ہوا
وہ منہدم سہی دیوار تو ملی اے رندؔ
اسی کے سائے میں تسکین کا ٹھکانا ہوا

غزل
اداس اداس تھے ہم اس کو اک زمانہ ہوا
رند ساغری