ابھرے جو خاک سے وہ تہ خاک ہو گئے
سب پائمال گردش افلاک ہو گئے
رکھتی تھی لاگ میرے گریباں سے نو بہار
دامن گلوں کے باغ میں کیوں چاک ہو گئے
تھے دیدہ ہائے خشک محبت کی آبرو
کم بخت ان کے سامنے نمناک ہو گئے
ایسا بھی کیا مزاج قیامت کا دن ہے آج
پیش خدا تم اور بھی بیباک ہو گئے
آتے ہی بزم وعظ سے چلتے بنے حفیظؔ
دو حرف سن کے صاحب ادراک ہو گئے
غزل
ابھرے جو خاک سے وہ تہ خاک ہو گئے
حفیظ جالندھری