EN हिंदी
ابھرے جو خاک سے وہ تہ خاک ہو گئے | شیح شیری
ubhre jo KHak se wo tah-e-KHak ho gae

غزل

ابھرے جو خاک سے وہ تہ خاک ہو گئے

حفیظ جالندھری

;

ابھرے جو خاک سے وہ تہ خاک ہو گئے
سب پائمال گردش افلاک ہو گئے

رکھتی تھی لاگ میرے گریباں سے نو بہار
دامن گلوں کے باغ میں کیوں چاک ہو گئے

تھے دیدہ ہائے خشک محبت کی آبرو
کم بخت ان کے سامنے نمناک ہو گئے

ایسا بھی کیا مزاج قیامت کا دن ہے آج
پیش خدا تم اور بھی بیباک ہو گئے

آتے ہی بزم وعظ سے چلتے بنے حفیظؔ
دو حرف سن کے صاحب ادراک ہو گئے