EN हिंदी
ابھر آیا رخ پر حیا کا نگینہ | شیح شیری
ubhar aaya ruKH par haya ka nagina

غزل

ابھر آیا رخ پر حیا کا نگینہ

کنول سیالکوٹی

;

ابھر آیا رخ پر حیا کا نگینہ
جبیں پر نہ دیکھا تھا ایسا پسینہ

چلی آ رہی ہے حسینوں کی ٹولی
زمیں پر ہے قوس قزح کا قرینہ

مرے ہاتھ آ ہی چلا تھا کنارا
لگا ڈوبنے میرے دل کا سفینہ

کسک سوئی رہتی ہے برسوں کبھی تو
جو جاگے تو جاگے مہینہ مہینہ

بھلا کون جانے وہ آئیں نہ آئیں
مرے پاس رہنے ہی دو جام و مینا

کبھی تم نے دیکھی ہیں پرخار راہیں
جو کہتے ہو الفت کو پھولوں کا زینہ

اڑا لی جو چوری سے گالوں کی چٹکی
تو بولے کنولؔ بھی ہے کتنا کمینہ