ابھر آیا رخ پر حیا کا نگینہ
جبیں پر نہ دیکھا تھا ایسا پسینہ
چلی آ رہی ہے حسینوں کی ٹولی
زمیں پر ہے قوس قزح کا قرینہ
مرے ہاتھ آ ہی چلا تھا کنارا
لگا ڈوبنے میرے دل کا سفینہ
کسک سوئی رہتی ہے برسوں کبھی تو
جو جاگے تو جاگے مہینہ مہینہ
بھلا کون جانے وہ آئیں نہ آئیں
مرے پاس رہنے ہی دو جام و مینا
کبھی تم نے دیکھی ہیں پرخار راہیں
جو کہتے ہو الفت کو پھولوں کا زینہ
اڑا لی جو چوری سے گالوں کی چٹکی
تو بولے کنولؔ بھی ہے کتنا کمینہ
غزل
ابھر آیا رخ پر حیا کا نگینہ
کنول سیالکوٹی