ٹوٹتا ہوں کبھی جڑتا ہوں میں
جاگتی آنکھ کا سپنا ہوں میں
اپنی صورت کو ترستا ہوں میں
آئنہ ڈھونڈنے نکلا ہوں میں
کبھی پنہاں کبھی پیدا ہوں میں
کس فسوں گر کا تماشا ہوں میں
خلش خار کبھی نکہت گل
ہر نفس رنگ بدلتا ہوں میں
دیکھیے کس کی نظر پڑتی ہے
کب سے شوکیس میں رکھا ہوں میں
کوئی تریاک نہیں میرا علاج
کشتۂ زہر تمنا ہوں میں
کبھی اٹھتے ہیں مرے دام بہت
کبھی بے مول بھی مہنگا ہوں میں
کوئی پہچانے تو کیا پہچانے
کبھی صورت کبھی سایا ہوں میں
آتش غم کی تمازت کے نثار
جتنا تپتا ہوں نکھرتا ہوں میں
کوئی جادہ ہے نہ منزل صابرؔ
اپنے ہی گرد بھٹکتا ہوں میں
غزل
ٹوٹتا ہوں کبھی جڑتا ہوں میں
نوبہار صابر