ٹوٹے ہیں کیسے خواہشوں کے آئنوں کو دیکھ
پلکوں کی تہ میں بکھری ہوئی کرچیوں کو دیکھ
میں ہوں ترا ہی عکس مرے رنگ پر نہ جا
آنکھوں میں جھانک اپنی ہی تنہائیوں کو دیکھ
یہ آسماں کے بدلے ہوئے رنگ غور کر
ان موسموں کے بپھرے ہوئے تیوروں کو دیکھ
سن تو در خیال پہ فردا کی دستکیں
خود کا حصار توڑ کے جاتی رتوں کو دیکھ
گلیوں میں گھومتی ہیں ہزاروں کہانیاں
چہروں پہ نقش وقت کی پہنائیوں کو دیکھ
اک اک پلک پہ چھائی ہے محرومیوں کی شام
ضبط سخن کی آگ میں جلتے لبوں کو دیکھ
کہتی ہے شامؔ کچھ تو مکانوں کی خامشی
بے مدعا نہیں ہیں کھلے روزنوں کو دیکھ
غزل
ٹوٹے ہیں کیسے خواہشوں کے آئنوں کو دیکھ
محمود شام

