ٹوٹ کے پتھر گرتے رہتے ہیں دن رات چٹانوں سے
ساون کی برسات کی صورت برسیں تیر کمانوں سے
کالے کوسوں دور سے آخر لائے بھی تو پھلجھڑیاں
ہیرے بھی تو مل سکے تھے سوچ کی گہری کانوں سے
اس رنگیں بازار میں کوئی کیا خوشبو کا دھیان کرے
پھولوں کو مالی بھی پرکھے رنگوں کے پیمانوں سے
رات سحر کی کھوج میں کتنے دیپ جلا کر نکلے تھے
کتنے تارے لوٹ کے آئے ہیں کالے ویرانوں سے
تپتی دھوپ میں کب سے مورکھ آس لگائے بیٹھا ہے
چشمے پھوٹ کے بہ نکلیں گے ریتیلے میدانوں سے
بیتی خوشیاں بھی اب دھیان میں آنے سے کتراتی ہیں
رات کو لوگ گزرتے ہیں ہٹ کر ویران مکانوں سے
عامرؔ کیسا دن گزرا ہے اور یہ کیسی شام ہوئی
پہروں خون ٹپکتے دیکھا سورج کی شریانوں سے

غزل
ٹوٹ کے پتھر گرتے رہتے ہیں دن رات چٹانوں سے
سرفراز عامر