EN हिंदी
ٹوٹ جاتا ہے ستاروں کا بھرم رات گئے | شیح شیری
TuT jata hai sitaron ka bharam raat gae

غزل

ٹوٹ جاتا ہے ستاروں کا بھرم رات گئے

منصور عثمانی

;

ٹوٹ جاتا ہے ستاروں کا بھرم رات گئے
جگمگاتے ہیں ترے نقش قدم رات گئے

کیا بتائیں جو گزرتی ہے ہمارے دل پر
یاد آتے ہیں جب اپنوں کے ستم رات گئے

غرق ہو جاتی ہے جب نیند میں ساری دنیا
جاگ اٹھتے ہیں ادیبوں کے قلم رات گئے

روز آتے ہیں صدا دے کے چلے جاتے ہیں
دل کے دروازے پہ کچھ اہل کرم رات گئے

روک لیتی ہے تری یاد سہارا بن کر
ڈگمگاتے ہیں اگر میرے قدم رات گئے

جن کی امید میں ہم دن کو جیا کرتے ہیں
ٹوٹ جاتے ہیں وہی قول و قسم رات گئے

جن کی قسمت میں نہیں دن کا اجالا منصورؔ
ان چراغوں میں جلا کرتے ہیں ہم رات گئے