ٹوٹ جائے تو کہیں اس کو بھی چین آتا ہے
دل بے تاب تڑپ کر ہی سکوں پاتا ہے
آپ آتے تو ٹھہر جاتے یہ لمحے شاید
وقت کو یوں بھی گزرنا ہے گزر جاتا ہے
اس تصور سے کہ شب بھر تری رہ دیکھیں گے
شام آتی ہے تو دل ڈوب کے رہ جاتا ہے
غم کا احساس بھی گنبد کی صدا ہو جیسے
دل سے ٹکراتا ہے پھر دل میں پلٹ آتا ہے
وسعت دید نگاہوں کا مقدر نہ بنی
آنکھ کے تل میں تو عالم بھی سمٹ آتا ہے
اشک تھمتے ہیں تو ہو جاتی ہیں آنکھیں خوں رنگ
جاں سنبھلتی ہے تو دل ضبط سے مر جاتا ہے
کوئی نسبت ہے تیرے نام سے سیمیںؔ ورنہ
یوں کسی بات کا الزام لیا جاتا ہے

غزل
ٹوٹ جائے تو کہیں اس کو بھی چین آتا ہے
رشیدہ سلیم سیمیں