EN हिंदी
ٹوٹ جائے تو کہیں اس کو بھی چین آتا ہے | شیح شیری
TuT jae to kahin usko bhi chain aata hai

غزل

ٹوٹ جائے تو کہیں اس کو بھی چین آتا ہے

رشیدہ سلیم سیمیں

;

ٹوٹ جائے تو کہیں اس کو بھی چین آتا ہے
دل بے تاب تڑپ کر ہی سکوں پاتا ہے

آپ آتے تو ٹھہر جاتے یہ لمحے شاید
وقت کو یوں بھی گزرنا ہے گزر جاتا ہے

اس تصور سے کہ شب بھر تری رہ دیکھیں گے
شام آتی ہے تو دل ڈوب کے رہ جاتا ہے

غم کا احساس بھی گنبد کی صدا ہو جیسے
دل سے ٹکراتا ہے پھر دل میں پلٹ آتا ہے

وسعت دید نگاہوں کا مقدر نہ بنی
آنکھ کے تل میں تو عالم بھی سمٹ آتا ہے

اشک تھمتے ہیں تو ہو جاتی ہیں آنکھیں خوں رنگ
جاں سنبھلتی ہے تو دل ضبط سے مر جاتا ہے

کوئی نسبت ہے تیرے نام سے سیمیںؔ ورنہ
یوں کسی بات کا الزام لیا جاتا ہے