طوفان سمندر کے نہ دریا کے بھنور دیکھ
ساحل کی تمنا ہے تو موجوں کا سفر دیکھ
خوشیوں کا خزینہ تہہ دامان الم ہے
گزرے شب تاریک تو پھر نور سحر دیکھ
اڑ جانا فلک تک کوئی مشکل نہیں لیکن
سورج کے تمازت سے جھلس جائیں نہ پر دیکھ
معراج ہے معراج ترے ذوق نظر کی
ہر منظر دل کش یہی کہتا ہے ادھر دیکھ
چشمے ہیں نہ دریا نہ سمندر ہے نہ جھیلیں
ہے پیاس کہ عالم ہیں سرابوں کا سفر دیکھ
ٹکرائیں تو صحراؤں میں بھی آگ لگا دیں
پوشیدہ رگ سنگ میں ہیں کتنے شرر دیکھ
تو نے تو مری سمت سے منہ موڑ لیا ہے
اب ہوتی ہے کس طرح مری عمر بسر دیکھ
تو اپنی حفاظت کی دعا مانگ چکا ہے
اب بیٹھ کے خلوت میں دعاؤں کا اثر دیکھ
اس کار گہہ دہر میں اے رحمت عالم
اک میں ہی نہیں سب ہیں ترے دست نگر دیکھ
کیا تہ میں سمندر کی گہرؔ ڈھونڈ رہا ہے
میری صدف چشم میں اشکوں کے گہرؔ دیکھ

غزل
طوفان سمندر کے نہ دریا کے بھنور دیکھ
گہر خیرآبادی