طوفاں کے ڈر سے رنگ اڑا بھی اسی کا تھا
لیکن سفینہ پار لگا بھی اسی کا تھا
جو ہونٹ سل گئے وہ ثنا خواں اسی کے تھے
جو مر گیا وہ حرف دعا بھی اسی کا تھا
اتری تھی اس کے گھر میں مہ و مہر کی برات
اور میرا ٹمٹماتا دیا بھی اسی کا تھا
مینار جاں میں اس کی صدا گونجتی رہی
لوح جبیں پہ نام لکھا بھی اسی کا تھا
تھی اس کے عکس رخ سے شفق رنگ زندگی
میرے لہو میں رنگ حنا بھی اسی کا تھا
خاموشیوں پہ پہلے کبھی اس کا بس نہ تھا
پھر یوں ہوا کہ شہر صدا بھی اسی کا تھا
پہلے تو چند لوگ طرفدار تھے مرے
پھر وہ بھی وقت تھا کہ خدا بھی اسی کا تھا
غزل
طوفاں کے ڈر سے رنگ اڑا بھی اسی کا تھا
خان محمد خلیل