تو یاد آیا اور مری آنکھ بھر گئی
اکثر ترے بغیر قیامت گزر گئی
اول تو مفلسوں کی کوئی آرزو نہیں
پیدا کبھی ہوئی بھی تو گھٹ گھٹ کے مر گئی
اک عشق جیسے لفظ میں مضمر ہو کائنات
اک حسن جیسے دھوپ چڑھی اور اتر گئی
ناز و ادا سے پاؤں اٹھے اور لرز گئے
اچھا ہوا کہ اس کی بلا اس کے سر گئی
طارقؔ تصورات میں آہٹ سی کیا ہوئی
جلتے گئے چراغ جہاں تک نظر گئی
غزل
تو یاد آیا اور مری آنکھ بھر گئی
شمیم طارق