تو قریب آئے تو قربت کا یوں اظہار کروں
آئنہ سامنے رکھ کر ترا دیدار کروں
سامنے تیرے کروں ہار کا اپنی اعلان
اور اکیلے میں تری جیت سے انکار کروں
پہلے سوچوں اسے پھر اس کی بناؤں تصویر
اور پھر اس میں ہی پیدا در و دیوار کروں
مرے قبضہ میں نہ مٹی ہے نہ بادل نہ ہوا
پھر بھی چاہت ہے کہ ہر شاخ ثمر بار کروں
صبح ہوتے ہی ابھر آتی ہے سالم ہو کر
وہی دیوار جسے روز میں مسمار کروں
غزل
تو قریب آئے تو قربت کا یوں اظہار کروں
ندا فاضلی