تو نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا
دور تک تنہائیوں کا سلسلہ رہ جائے گا
کیجئے کیا گفتگو کیا ان سے مل کر سوچئے
دل شکستہ خواہشوں کا ذائقہ رہ جائے گا
درد کی ساری تہیں اور سارے گزرے حادثے
سب دھواں ہو جائیں گے اک واقعہ رہ جائے گا
یہ بھی ہوگا وہ مجھے دل سے بھلا دے گا مگر
یوں بھی ہوگا خود اسی میں اک خلا رہ جائے گا
دائرے انکار کے اقرار کی سرگوشیاں
یہ اگر ٹوٹے کبھی تو فاصلہ رہ جائے گا
غزل
تو نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا
افتخار امام صدیقی