EN हिंदी
تو نہیں تو زندگی آزار ہے تیرے بغیر | شیح شیری
tu nahin to zindagi aazar hai tere baghair

غزل

تو نہیں تو زندگی آزار ہے تیرے بغیر

محمد صدیق صائب ٹونکی

;

تو نہیں تو زندگی آزار ہے تیرے بغیر
زندگی زندہ دلی پر بار ہے تیرے بغیر

زندگانی سے کسے انکار ہے تیرے بغیر
زندگانی ہے مگر بے کار ہے تیرے بغیر

آ کہ پیہم اب یہ حال زار ہے تیرے بغیر
ہر نفس اک تیز رو تلوار ہے تیرے بغیر

ننگ ہو کیوں کر نہ میرے واسطے دنیا مری
زندگی میری مجھے خود عار ہے تیرے بغیر

آ تجھے میری قسم مشکل مری آسان کر
زیست کا ہر مرحلہ دشوار ہے تیرے بغیر

پوچھتے ہیں لوگ مجھ سے میری خاموشی کا حال
بے زبانی میں مری گفتار ہے تیرے بغیر

لمحہ لمحہ ہے کسی کا بے ترے سوہان روح
لمحے لمحے سے کوئی بیزار ہے تیرے بغیر

واسطہ تجھ کو مسیحائی کا تیری جلد آ
نزع کے عالم میں اک بیمار ہے تیرے بغیر

فصل گل سب کی نظر میں ہے مگر میرے لئے
اک خزاں میں عالم گلزار ہے تیرے بغیر

یہ بجا ہر گل ہے وجہ زینت گلشن مگر
میری دنیائے نظر میں خار ہے تیرے بغیر

نور سے معمور ہے ہر گل بہ صحن بوستاں
قطرۂ شبنم نظر میں تار ہے تیرے بغیر

یہ بہاراں یہ شباب سبزۂ نورس نہ پوچھ
باغ کیا ہے معدن زنگار ہے تیرے بغیر

اس فضائے ابر میں غسل ہوائی کی قسم
موجۂ باد صبا آزار ہے تیرے بغیر

آ کہ یہ کالی گھٹا اب تیرے گیسو کی قسم
اک بلا سی بر سر کہسار ہے تیرے بغیر