تو نہ آیا تری یادوں کی ہوا تو آئی
دل کے تپتے ہوئے صحرا پہ گھٹا تو آئی
میں تو سمجھا تھا کہ اب کوئی نہ اپنا ہوگا
تیرے کوچے سے مگر ہو کے صبا تو آئی
میرے مرنے کی سہی جاں سے گزرنے کی سہی
میرے حق میں تیرے ہونٹوں پہ دعا تو آئی
دل دہی کا جو سلیقہ نہیں آیا نہ سہی
آپ کو دل کے دکھانے کی ادا تو آئی
ہو گیا آپ ہی آپ آج مداوا اپنا
گر مسیحا نہیں آیا تو قضا تو آئی
مجھ کو شکوہ نہیں اب قاسم قسمت سے شکیبؔ
کچھ نہ آیا مرے حصے میں وفا تو آئی

غزل
تو نہ آیا تری یادوں کی ہوا تو آئی
شکیب بنارسی