EN हिंदी
تو مجھ کو جو اس شہر میں لایا نہیں ہوتا | شیح شیری
tu mujhko jo is shahr mein laya nahin hota

غزل

تو مجھ کو جو اس شہر میں لایا نہیں ہوتا

فرحت احساس

;

تو مجھ کو جو اس شہر میں لایا نہیں ہوتا
میں بے سر و ساماں کبھی رسوا نہیں ہوتا

اس کی تو یہ عادت ہے کسی کا نہیں ہوتا
پھر اس میں عجب کیا کہ ہمارا نہیں ہوتا

کچھ پیڑ بھی بے فیض ہیں اس راہ گزر کے
کچھ دھوپ بھی ایسی ہے کہ سایا نہیں ہوتا

خوابوں میں جو اک شہر بنا دیتا ہے مجھ کو
جب آنکھ کھلی ہو تو وہ چہرا نہیں ہوتا

کس کی ہے یہ تصویر جو بنتی نہیں مجھ سے
میں کس کا تقاضا ہوں کہ پورا نہیں ہوتا

میں شہر میں کس شخص کو جینے کی دعا دوں
جینا بھی تو سب کے لیے اچھا نہیں ہوتا