تو مجھ کو جو اس شہر میں لایا نہیں ہوتا
میں بے سر و ساماں کبھی رسوا نہیں ہوتا
اس کی تو یہ عادت ہے کسی کا نہیں ہوتا
پھر اس میں عجب کیا کہ ہمارا نہیں ہوتا
کچھ پیڑ بھی بے فیض ہیں اس راہ گزر کے
کچھ دھوپ بھی ایسی ہے کہ سایا نہیں ہوتا
خوابوں میں جو اک شہر بنا دیتا ہے مجھ کو
جب آنکھ کھلی ہو تو وہ چہرا نہیں ہوتا
کس کی ہے یہ تصویر جو بنتی نہیں مجھ سے
میں کس کا تقاضا ہوں کہ پورا نہیں ہوتا
میں شہر میں کس شخص کو جینے کی دعا دوں
جینا بھی تو سب کے لیے اچھا نہیں ہوتا
غزل
تو مجھ کو جو اس شہر میں لایا نہیں ہوتا
فرحت احساس