EN हिंदी
تو کیوں پاس سے اٹھ چلا بیٹھے بیٹھے | شیح شیری
tu kyun pas se uTh chala baiThe baiThe

غزل

تو کیوں پاس سے اٹھ چلا بیٹھے بیٹھے

میر تسکینؔ دہلوی

;

تو کیوں پاس سے اٹھ چلا بیٹھے بیٹھے
ہوا تجھ کو کیا بے وفا بیٹھے بیٹھے

وہ آتے ہی آتے رہے پر قلق سے
مرا کام ہی ہو گیا بیٹھے بیٹھے

اٹھاتے ہو کیوں اپنی محفل سے مجھ کو
لیا میں نے کیا آپ کا بیٹھے بیٹھے

کرے سعی کچھ اٹھ کے اس کو سے اے دل
یہ حاصل ہوا مدعا بیٹھے بیٹھے

وو اس لطف سے گالیاں دے گئے ہیں
کیا کرتے ہیں ہم دعا بیٹھے بیٹھے

ذرا گھر سے باہر نکل مان کہنا
نہ ہوگا کوئی مبتلا بیٹھے بیٹھے

نہ اٹھا گیا دل کے ہاتھوں سے تسکیںؔ
کہا اس نے جو سب سنا بیٹھے بیٹھے