تو کہاں ہے مجھے او خواب دکھانے والے
آ کہ دکھلاؤں تجھے میں ترے وعدوں کی کتاب
یاد ہیں تجھ کو وہ مہکے ہوئے رنگین خطوط
کس قدر پیار سے لاتی تھیں نصابوں کی کتاب
اب کوئی خواب میں دیکھوں کہاں فرصت ہے مجھے
میری بے خواب نگاہوں میں ہے یادوں کی کتاب
یہ تو ممکن ہے بیاں ہجر کی روداد کروں
ہے کسے تاب سنے غم کے حسابوں کی کتاب
میں نے آتے ہوئے ہر چیز سمیٹی تھی مگر
بھول آیا ہوں کسی طاق پہ خوابوں کی کتاب

غزل
تو کہاں ہے مجھے او خواب دکھانے والے (ردیف .. ب)
طارق رشید درویش