تو جو کہتا ہے بولتا کیا ہے
امر ربی ہے روح مولا ہے
جب تلک ہے جدا تو ہے قطرہ
بحر میں مل گیا تو دریا ہے
فی الحقیقت کوئی نہیں مرتا
موت حکمت کا ایک پردا ہے
اور شریعت کی پوچھتا ہے تو یار
وحدہ لا شریک یکتا ہے
ہے گا وہم و قیاس سے باہر
وہ نہ تجھ سا ہے اور نہ مجھ سا ہے
جہاں ہو جو کہو سمیع و بصیر
سب کو دیکھے ہے سب کی سنتا ہے
نظر آتا نہیں وہ اعمیٰ کو
ورنہ اس کا ظہور سب جا ہے
ور طریقت کا تو کرے ہے سوال
سو تو کہتا ہوں گر سمجھتا ہے
غیر حق کے نہ دیکھ غیر طرف
دیدۂ دل جو تیرا بینا ہے
بات سنتا ہے تو اسی کی سن
گر طریقت سے تجھ کو بہرا ہے
اس کے تو ذکر بن نہ کر کچھ ذکر
گر دہاں میں زبان گویا ہے
ہاتھ سے کام بھی اسی کا کر
پاؤں سے چل جو راہ اس کا ہے
کام اس میں بڑا ہے نفس کشی
ہو سکے تو عجب تماشا ہے
معرفت پوچھ کیا ہے عارف سے
جس کو عرفان ہے سو تو گونگا ہے
جس نے پایا اسے سو ہے خاموش
جس نے پایا نہیں سو بکتا ہے
آپ ہی آپ ہے جہاں دیکھو
کل شی محیط پیدا ہے
عشق کا مرتبہ ہے سب سے بلند
سر سے پہلے قدم گزرتا ہے
جو ہوا سر عشق سے آگاہ
آگے مرنے سے آپ مرتا ہے
جو فنا ہو ہوا بقا باللہ
کب اسے زندگی کی پروا ہے
اس کو ہر آن ہر قدم ہر دم
از ثریٰ سیر تا ثریا ہے
رمز توحید کو سمجھ کر بول
گر تو صاحب شعور و دانا ہے
وہ نہ سمجھے گا یہ سخن حاتمؔ
جس کو جہل اور خیال سودا ہے
غزل
تو جو کہتا ہے بولتا کیا ہے
شیخ ظہور الدین حاتم