تو جو بدلا تو زمانہ بھی بدل جائے گا
گھر جو سلگا تو بھرا شہر بھی جل جائے گا
سامنے آ کہ مرا عشق ہے منطق میں اسیر
آگ بھڑکی تو یہ پتھر بھی پگھل جائے گا
دل کو میں منتظر ابر کرم کیوں رکھوں
پھول ہے قطرۂ شبنم سے بہل جائے گا
موسم گل اگر اس حال میں آیا بھی تو کیا
خون گل چہرۂ گلزار پہ مل جائے گا
وقت کے پاؤں کی زنجیر ہے رفتار ندیمؔ
ہم جو ٹھہرے تو افق دور نکل جائے گا
غزل
تو جو بدلا تو زمانہ بھی بدل جائے گا
احمد ندیم قاسمی