EN हिंदी
تو جو بدلا تو زمانہ بھی بدل جائے گا | شیح شیری
tu jo badla to zamana bhi badal jaega

غزل

تو جو بدلا تو زمانہ بھی بدل جائے گا

احمد ندیم قاسمی

;

تو جو بدلا تو زمانہ بھی بدل جائے گا
گھر جو سلگا تو بھرا شہر بھی جل جائے گا

سامنے آ کہ مرا عشق ہے منطق میں اسیر
آگ بھڑکی تو یہ پتھر بھی پگھل جائے گا

دل کو میں منتظر ابر کرم کیوں رکھوں
پھول ہے قطرۂ شبنم سے بہل جائے گا

موسم گل اگر اس حال میں آیا بھی تو کیا
خون گل چہرۂ گلزار پہ مل جائے گا

وقت کے پاؤں کی زنجیر ہے رفتار ندیمؔ
ہم جو ٹھہرے تو افق دور نکل جائے گا