EN हिंदी
تو جو آباد ہے اے دوست مرے دل کے قریب | شیح شیری
tu jo aabaad hai ai dost mere dil ke qarib

غزل

تو جو آباد ہے اے دوست مرے دل کے قریب

عبد الملک سوز

;

تو جو آباد ہے اے دوست مرے دل کے قریب
میری منزل بھی ہے گویا تری منزل کے قریب

ڈوب جاتے ہیں تلاطم میں سفینے اکثر
ڈوبتا اور ہی کچھ بات ہے ساحل کے قریب

اٹھ گیا دورئ منزل کی تھکن کا احساس
راہ کچھ اور کٹھن ہو گئی منزل کے قریب

موت ہر بار رہائی میں مری مانع ہوئی
لے گئی زیست تو اکثر مجھے قاتل کے قریب

سوزؔ خود ان کی خلش رشک مسیحائی ہے
زخم ایسے بھی شگفتہ ہیں مرے دل کے قریب