تو جو آباد ہے اے دوست مرے دل کے قریب
میری منزل بھی ہے گویا تری منزل کے قریب
ڈوب جاتے ہیں تلاطم میں سفینے اکثر
ڈوبتا اور ہی کچھ بات ہے ساحل کے قریب
اٹھ گیا دورئ منزل کی تھکن کا احساس
راہ کچھ اور کٹھن ہو گئی منزل کے قریب
موت ہر بار رہائی میں مری مانع ہوئی
لے گئی زیست تو اکثر مجھے قاتل کے قریب
سوزؔ خود ان کی خلش رشک مسیحائی ہے
زخم ایسے بھی شگفتہ ہیں مرے دل کے قریب
غزل
تو جو آباد ہے اے دوست مرے دل کے قریب
عبد الملک سوز