تو ہی انصاف سے کہہ جس کا خفا یار رہے
اپنے جینے سے نہ کس طرح وہ بے زار رہے
زخم دل چھیلے کبھی اور کبھی زخم جگر
ناخن دست جنوں کب مرے بیکار رہے
ان جفاؤں کا مزہ تم کو چکھا دیویں گے
ہاں اگر زندہ ہم اے چرخ جفاکار رہے
مے کدے میں ہے بڑی یہ ہی مغاں کی پیری
کہ بس اس چشم سیہ مست سے ہشیار رہے
جلتے بھنتے رہے ہم بزم بتاں میں لیکن
شمع ساں اس پہ بھی سر دینے کو تیار رہے
یوں تو کیا خواب میں بھی یار کا ملنا معلوم
اپنے گر آہ یہی طالع بیدار رہے
ایک جا سینے میں ان دونوں کا رہنا ہے محال
یا یہ دل ہی رہے یا آہ شرربار رہے
اس سے دل خاک ہو امید حصول مطلب
جس سے اک بوسے پہ سو طرح کی تکرار رہے
لے کے پیکاں سے ترے تیر بتا تو قاتل
خون میں ڈوبے نہیں کب تا لب سوفار رہے
جنس دل آتش الفت میں جلے جو چاہے
پر کسی طرح تری گرمی بازار رہے
بازی عشق میں چپکے رہو کیا خاک کہیں
ایک دل رکھتے تھے پاس اپنے سو بار رہے
ایسا دم ناک میں آیا ہے کہ ہم راضی ہیں
عیشؔ گر سینے میں اس دل کے عوض خار رہے
غزل
تو ہی انصاف سے کہہ جس کا خفا یار رہے
عیش دہلوی