تو ہی ہے مری یہ بود و بقا تو اور نہیں میں اور نہیں
دیکھا جو اپنے کو تو ہی ملا تو اور نہیں میں اور نہیں
تو ہی عدم کا تھا پردہ نشیں مرے دل کے مکاں کا ہے تو ہی مکیں
مری ہستی ہے سب یہ ظہور ترا تو اور نہیں میں اور نہیں
مرے ہوش ربا نے ہے فضل کیا مجھے راز خدائی اپنا دیا
مری روح میں روح ملا کے کہا تو اور نہیں میں اور نہیں
کہتا ہے یہ مجھ سے میرا صنم کہ ہیں ایک ہی یہ دونوں حدوث و قدم
کچھ فرق نہیں اس میں ہے ذرا تو اور نہیں میں اور نہیں
مردان صفیؔ مرا ماہ لقا ہے میری ہی شکل میں جلوہ نما
مجھ سے یہ کہتا ہے کہہ دے کھلا تو اور نہیں میں اور نہیں

غزل
تو ہی ہے مری یہ بود و بقا تو اور نہیں میں اور نہیں
مردان صفی