EN हिंदी
تو ہے اور عیش ہے اور انجمن آرائی ہے | شیح شیری
tu hai aur aish hai aur anjuman-arai hai

غزل

تو ہے اور عیش ہے اور انجمن آرائی ہے

وحشتؔ رضا علی کلکتوی

;

تو ہے اور عیش ہے اور انجمن آرائی ہے
میں ہوں اور رنج ہے اور گوشۂ تنہائی ہے

سچ کہا ہے کہ بہ امید ہے دنیا قائم
دل حسرت زدہ بھی تیرا تمنائی ہے

دل کی فریاد جو سنتا ہوں تو رو دیتا ہوں
چوٹ کمبخت نے کچھ ایسی ہی تو کھائی ہے

بے نیازی کی ادائیں وہ دکھاتے ہیں بہت
خوئے تسلیم مری ان کو پسند آئی ہے

زلف برہم مژہ برگشتہ جبیں چین آلود
میری بگڑی ہوئی تقدیر کی بن آئی ہے

ادب آموز بلا کا ہے تغافل ان کا
شوق پر حوصلہ نے خوب سزا پائی ہے

کہے دیتا ہوں کسی اور کی جانب تو نہ دیکھ
کیا یہ کچھ کم ہے کہ وحشتؔ ترا سودائی ہے