EN हिंदी
تو بگڑتا بھی ہے خاص اپنے ہی انداز کے ساتھ | شیح شیری
tu bigaDta bhi hai KHas apne hi andaz ke sath

غزل

تو بگڑتا بھی ہے خاص اپنے ہی انداز کے ساتھ

احمد ندیم قاسمی

;

تو بگڑتا بھی ہے خاص اپنے ہی انداز کے ساتھ
پھول کھلتے ہیں ترے شعلۂ آواز کے ساتھ

ایک بار اور بھی کیوں عرض تمنا نہ کروں
کہ تو انکار بھی کرتا ہے عجب ناز کے ساتھ

لے جو ٹوٹی تو صدا آئی شکست دل کی
رگ جاں کا کوئی رشتہ ہے رگ ساز کے ساتھ

تو پکارے تو چمک اٹھتی ہیں میری آنکھیں
تیری صورت بھی ہے شامل تری آواز کے ساتھ

جب تک ارزاں ہے زمانے میں کبوتر کا لہو
ظلم ہے ربط رکھوں گر کسی شہباز کے ساتھ

پست اتنی تو نہ تھی میری شکست اے یارو
پر سمیٹے ہیں مگر حسرت پرواز کے ساتھ

پہرے بیٹھے ہیں قفس پر کہ ہے صیاد کو وہم
پر شکستوں کو بھی اک ربط ہے پرواز کے ساتھ

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ